Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

”ارے بھئی بہت خوش ہو آج تم اور ممی، عابدی انکل کا بیٹا کوئی خزانہ دے گیا ہے تمہیں؟ جو شام سے تمہارے دانت ہی اندر نہیں ہو رہے ہیں، پاگلوں کی طرح ہنسے جا رہی ہو۔“ عائزہ ڈریسنگ ٹیبل کے آگے بیٹھی اپنے چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے طنز سے بولی۔
”کبھی کوئی بات بغیر طنز کے بھی کر لیا کرو، عادلہ!“
”مجھے تمہاری طرح بات بے بات ہا ہا ہا… ہی ہی پسند نہیں ہے، میں سنجیدہ ہوں اور سنجیدگی میں بہت وقار ہوتا ہے۔
”تم سنجیدہ نہیں رنجیدہ لگتی ہو مجھے، تم نہ خوش رہتی ہو اور نہ ہی دوسروں کو خوش دیکھنے کا حوصلہ ہے تم میں۔“ عادلہ آئینے میں اس کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”اچھا، پہلے اپنی خوشی سے میرا تعارف تو کرواؤ، جو میں بھی خوش ہو جاؤں اور تمہیں بتاؤں مجھ میں حوصلہ ہے یا نہیں…؟“ اس کو مسکراتے دیکھ کر عادلہ اس کے قریب بیٹھ کر گرم جوشی سے بولی۔


”عابدی انکل کا بیٹا امریکہ پلٹ ہے بہت ڈیشنگ، اسمارٹ اور چارمنگ ہے نامعلوم کتنی لڑکیاں مرتی ہوں گی اس پر۔“
”وہ تو پری پر مر مٹا ہے، ممی بتا رہی تھیں ناں، پارٹی والے دن اس نے پری کی تصویریں لی تھیں اس کے آگے پیچھے گھومتا رہا تھا، وہ تو ممی نے ہی پری کو وہاں سے گھر بھیجا تھا ورنہ…“
”بس بس چپ رہو، سب معلوم ہے مجھے وہ تو پرانی بات تھی ناں جب اس نے مجھے دیکھا نہیں تھا، آج اس نے دیکھا اور دیکھتا رہ گیا وہ مجھے۔
“ عادلہ خوشی سے سرشار تھی۔
”بہت خوب! کہیں اس نے تمہیں دنیا کا آٹھواں عجوبہ تو نہیں سمجھ لیا؟“ عائزہ بے حد سنجیدہ تھی مگر اس کی آنکھوں میں مسکراہٹ تھی۔
”شٹ اپ، میں تمہارا منہ توڑ دوں گی عائزہ! تم اس قابل ہی نہیں ہو کہ تم سے پرسنل بات کی جائے بہت بے وقوف ہو تم۔“
جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
عائزہ گنگنانے لگی تھی۔
###
گاڑی کی رفتار دھیمی ہو رہی تھی ساحر کے چہرے کے تاثرات تیزی سے بدل رہے تھے وہ مستعد ہو کر بیٹھ گیا تھا گویا کسی بہت برگزیدہ ہستی سے اس کی ملاقات ہونے والی ہے از حد مرعوبیت اور تابعداری کے تاثرات تھے اس کے چہرے پر،جس کا اثر رخ پر بھی پڑا تھا اس نے گلے میں پڑے مفلر کو تیزی سے سر پر سیٹ کرنا شروع کر دیا تھا وہ مفلر جس کی چوڑائی ایک بالشت بھی نہ تھی کسی پٹی کی مانند سر کے درمیانی حصے پر ہی فٹ ہوا تھا۔
”ساحر! تمہارے ڈیڈ تو مجھے بہت بارعب و غصہ والے لگ رہے ہیں۔“
”تم فکر مت کرو، غصہ ور صرف وہ میرے لئے ہیں تم کو تو بہت محبت سے رکھیں گے وہ، لڑکیوں سے محبت کرتے رہیں وہ۔“
”تم کچھ بھی کہو مجھے یقین نہیں آ رہا مجھے ڈر ہے میرا پہلا امپریشن ہی ان پر برا پڑے گا اور یہ سب تمہاری وجہ سے ہوگا۔“ ساحر کی شوخ مسکراہٹ اس کو اس وقت زہر لگ رہی تھی۔
”میری بات غور سے سنو، میں یہاں سے سیدھا ڈیڈ کے روم میں جاؤں گا تب تک تم ڈریس اپ ہو کر ریڈی ہو جانا، ڈنر پر میں تم کو ڈیڈ سے ملواؤں گا۔ بہت اچھی طرح سے تیار ہونا بلکہ دلہن بننا، اب تو ملن رت آئی ہے فاصلے مٹانے کا وقت آن پہنچا ہے۔“ ساحر کے لہجے میں عجیب سی تپش تھی۔ اس سے نگاہیں نہ اٹھائی گئیں چہرے پر حیاء کی شفق پھیلتی گئی اور سفر ختم ہوا گاڑی رک چکی تھی۔
”شکر ہے یہ طویل ترین سفر ختم ہوا۔“ وہ آسودگی سے بولی۔
”ختم نہیں ہوا ابھی تو شروع ہو گا، حیات نو کا سفر۔“ ڈرائیور نے گیٹ وا کیا تو دونوں باہر نکل آئے تھے۔ یہ بھی ایک کورڈ پارکنگ لاٹ تھا۔
وہاں ایک سیاہ فام عورت کھڑی تھی جو مسکراتی ہوئی اس کی جانب آئی، اشارے سے اسے سلام کیا، جھک کر اس کے ہاتھ تھامے اور بوسے دیئے تھے اس کے ہاتھوں کی پشت پر اس کے انداز میں بے حد عزت اور احترام تھا پہلے ہی قدم پر اتنی عزت و توقیر پانے پر وہ پھولے نہ سما رہی تھی لمحے بھر میں وہ تصور کی دنیا سجا بیٹھی تھی جہاں شاہی لباس میں سر پر بیش قیمت تاج رکھے حکمرانی کے سب سے اونچے تخت پر وہ براجمان تھی۔
”رخ… رخ… رخ…“ ساحر کی آواز پر وہ ہڑبڑا کر حواسوں میں آئی۔
”یہ ملازمہ ہے تمہیں میرے روم میں لے جائے گی، وہاں تمہاری ضرورت کی ہر چیز موجود ہے اگر کوئی چیز رہ گئی ہو تو تم کہہ دینا، مل جائے گی، اب تم تیار ہو جاؤ کھانا روم میں ہی کھا لینا۔“
”تمہارے بغیر میں تنہا کھانا نہیں کھاؤں گی۔ وہ لاڈ سے بولی۔
”رخ! دیکھو میں بزنس کے چکر میں عموماً باہر رہتا ہوں تو تم کو ابھی سے ان تمام باتوں کی عادت ڈالنی ہے۔
”ٹھیک ہے مگر اب میں تمہیں تنہا باہر زیادہ جانے نہیں دوں گی۔“ اس نے حق جتاتے ہوئے کہا اور ملازمہ کے ہمراہ آگے بڑھ گئی اور وہ جہاں جہاں سے گزر رہی تھی وہاں کی تزئین و آرائش سے مرعوب ہو رہی تھی۔
###
دسمبر کا آخری ہفتہ تھا۔
موسم سرد تھا ایک ایسی اداسی ہر سو پھیلی تھی جو دل کو عجیب سے درد سے آشنا کرتی ہے جس کی موجودگی کا سبب ہزار ہا کوششوں کے باوجود معلوم نہیں ہوتا مگر درد محسوس ہوتا ہے وہ بھی ہمیشہ کی طرح اس وحشت بھری تنہائی کو محسوس کر رہی تھی وہ ہر سال اس موسم کا انتظار کرتی تھی یہ سرد خاموش و اداس موسم اس کو اپنے جیسا لگتا تھا، تنہا، بے کل اور روٹھا روٹھا سا، اپنی دنیا میں گم، اپنی وحشت بھری اداسیوں میں مگن یا کسی ایسے دوست کی تلاش کے رنگ بھرے یا پھر اس کے ساتھ چل پڑے اور کہے ”تم میرے جیسے ہو، آؤ اس تنہائی کو ہم شیئر کرتے ہیں، خوش رہتے ہیں۔
”اتنا کیوں سوچتی ہو پارس! کوئی نئی دنیا دریافت کرنے کا ارادہ ہے؟ کب سے کھڑا میں تم کو دیکھ رہا ہوں اور تم اپنی دنیا میں مگن ہو، کیا سوچتی رہتی ہو پتا تو چلے؟“
دادی کی طرف جاتا ہوا طغرل ٹیرس پر کھڑا پری کو دیکھ کر رک گیا تھا وہ گرم شال اوڑھے باہر لان میں دیکھ رہی تھی جہاں اس سرد موسم میں ٹھنڈی ہواؤں کے سوا اردگرد پھیلی ٹھٹھرتی ہوئی سی چاندنی تھی اور گہرا سکون و سناٹا تھا اور وہ گویا اس دنیا میں نہیں تھی سوچوں کے گھوڑوں پر سوار نامعلوم کس جہاں کی سیر کر رہی تھی اس کی شال سر سے ڈھلک چکی تھی بال ہوا سے بکھر رہے تھے مگر اس کو ہوش نہ تھا۔
”پارس! کم آن یہ ہوا تم کو نقصان پہنچا دے گی، سب کمبلوں میں آرام کر رہے ہیں اور دیکھو کوئی پرندہ بھی یہاں نہیں ہے تم کیوں خود کو سزا دے رہی ہو، اتنی سردی میں کھڑے ہو کر؟“ اس کی آواز پر چونک کر اس نے پھرتی سے سر پر شال لی تھی۔
”آپ جائیں کیوں آئے ہیں یہاں؟“ وہ ترش لہجے میں بولی۔ ”مجھے میری دنیا میں مگن رہنے دیں، مجھے یہاں سکون ملتا ہے۔
”یہ سکون ہے؟ سب اپنے کمروں میں گرم بستروں میں دبکے ہوئے ہیں اورتم یہاں اس سرد موسم میں کسی بھٹکتی ہوئی روح کی مانند بے چین پھر رہی ہو، یہ تو سراسر خود کشی ہے پارس!“ اس کے لہجے میں ہمدردی تھی وہ آگے بڑھ آیا تھا۔
”طغرل بھائی! آپ جائیں یہاں سے میں خود چلی جاؤں گی۔ آپ کو مجھ سے ہمدردی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ وہ بلاوجہ سے اس سے الجھ رہی تھی۔
”مجھے تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں تمہیں مجھے ٹائم دینا ہوگا۔“ وہ اس وقت اس سے کمپرومائز کے موڈ میں تھا۔
”کیسی باتیں؟ میں آپ سے کوئی بات کرنا نہیں چاہتی۔“
”مجھے تم سے کچھ کہنا ہے اور وہ تمہیں سننا ہوگا۔“ طغرل کے لہجے میں سختی ابھرنے لگی تھی
”میرا بہت تماشا بن چکا ہے آپ کی وجہ سے، میں اور برداشت نہیں کر سکتی اگر چند دن میں آپ نے سے اپنائیت سے بات کر لی ہے تو وہ سب تاؤ جان کی طبیعت کی وجہ سے تھا۔
“ وہ اس جانب رخ کرکے سرد مہری سے کہہ رہی تھی۔
”آپ اس خوش فہمی میں مبتلا مت ہو جایئے گا کہ میں بھی کچھ اسٹوپڈ لڑکیوں کی طرح آپ کے عشق میں مبتلا ہو گئی ہوں تو کان کھول کر سن لیجئے ایسا کبھی نہیں ہوگا۔“ مذنہ کا اس کو بہو بنانے سے انکار، دادی جان کے آنسو اور بے بسی، تڑپ کب سے اس کے اندر آگ بن کر بھڑک رہی تھی اور اس بھڑکتی آگ کے شعلوں کا شکار بے قصور طغرل بنا تھا۔
”مجھے معلوم ہے ایسا نہیں ہے تم میرے عشق میں مبتلا نہیں ہو مگر یہ گارنٹی نہیں ہے کبھی مبتلا نہیں ہو گی۔“ وہ سینے پر ہاتھ باندھ کر دلکشی سے مسکرا کر بولا۔
”ہونہہ… منہ دھو رکھیئے، ایسا ممکن ہی نہیں۔“
اینی ویز، میں یہاں تم سے کوئی عہد و پیماں کرنے نہیں آیا ہوں، چل کر میری بات سنو جو اہم ہے۔“ اس نے آگے بڑھ کر اس کا بازو تھاما اور گھسیٹتا والے گیا۔
###
دشت سفر ٹھہرا پھر میرے سفینے کا
میں نے خواب دیکھا تھا برف پگھلنے کا
دھوپ کی تمازت تھی موسم کے مکانوں پر
اور تم بھی لے آئے سائبان شیشے کا
”یہ… یہ کیا حرکت ہے؟“ اس نے جھٹکے سے اس کا ہاتھ جھٹکا تھا وہ اس کو روم میں لے آیا تھا۔
”ریلیکس یار! چیخو مت…“
”میں چیخوں گی، آپ مجھے زبردستی لائے ہیں۔
”تو چیخو! پرابلم تمہیں ہو گی مجھے نہیں، فکر تمہیں ہوتی ہے، ڈر تمہیں لگتا ہے کچھ لوگوں سے۔“ وہ سینے پر بازو لپیٹے کھڑا اطمینان سے کہہ رہا تھا۔
”آپ کو خوف محسوس نہیں ہوتا؟“ پری کے سخت لہجے میں کچھ حیرانی بھی شامل تھی۔
”آپ ممی کی نیچر کو اچھی طرح جان گئے ہیں میری رسوائی ان کیلئے تسکین کا باعث ہوتی ہے۔“
”مجھے خوف محسوس نہیں ہوتا ہے کسی سے بھی خواہ وہ صباحت آنٹی ہوں یا کوئی اور ذہنی مریض۔
جو صرف اور صرف اپنی خود غرضی کے سبب دوسروں کو تکلیف دینے میں اپنی گھٹیا خوشیاں تلاش کرتے ہوں۔“
”آپ کے کہنے سے کیا ہوتا ہے جو جیسا ہے وہ ویسا ہی رہے گا۔ یہ بتائیں آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟“ وہ کسی حد تک اپنے غصے پر قابو پا کر گویا ہوئی۔
”تمہیں معلوم ہے میں جا رہا ہوں۔“
”ہوں۔“ اس کے انداز میں بے پروائی تھی۔
”مجھے نہیں معلوم وہاں مجھے کتنا عرصہ لگتا ہے۔
بہت جلد آ جاؤں میں، شاید مجھے ٹائم بھی لگ جائے۔“ وہ بے ربط بول رہا تھا۔ جو کہنا چاہ رہا تھا وہ کہہ نہیں پا رہا تھا اس کے وجیہہ چہرے پر عجیب سے احساسات تھے اس کی نگاہوں میں کوئی چمک تھی، کوئی پیغام تھا وہ اس سے دل کی بات کہنا چاہ رہا تھا، بدلتے ہوئے جذبات، احساسات، خیالات شیئر کرنا چاہتا تھا لیکن سیاہ شال کے ہالے میں چمکتے پری کے خوبصورت چہرے پر بہت سر دو سپاٹ تاثرات تھے، ہمیشہ کی طرح اس کے انداز میں بے گانگی و لاتعلقی نمایاں بھی جو مقابل کو کچھ کہنا تو درکنار نگاہ بھر کر دیکھنے کا موقع بھی نہیں دیتی تھی۔
اس لمحے ایسا ہی ہوا تھا وہ دل کی بات دل میں ہی دبا بیٹھا تھا۔
”یہ سب آپ مجھے کیوں بتا رہے ہیں؟“ اس کی سوچوں سے بے خبر وہ شانے اچکا کر گویا ہوئی تھی۔“ آپ کے واپس آنے یا نہ آنے سے مجھے کیا لینا دینا؟“ پل بھر کو اس کا دل ساکت سا ہوا تھا وہ کھڑا کا کھڑا رہ گیا تھا۔ وہ اس قدر کٹھور و بے حس ہو گی، دل مانا نہ تھا۔
”طغرل صاحب! کل تک آپ بھی ایسے ہی بے حس و کٹھور تھے دل کتنا نازک ہوتا ہے اور محبت کتنی حساس، آپ کو معلوم نہ تھا، آپ کے جذبے بدلے ہیں تو احساسات بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔
ابھی دوسری طرف معاملہ گڑ بڑ ہے جو انقلابی تبدیلی آپ کے اندر برپا ہو چکی ہے شاید دوسری طرف برپا ہونے خاصا وقت لگے۔ بہتر یہی ہے آپ کے حق میں ابھی اپنی ”نوزائیدہ محبت“ کی کیئر کرو اور جذبوں کے اظہار کیلئے کسی اچھے وقت کا انتظار۔“ اس نے اپنے دل کو تسلی دی تھی۔
”ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو، تمہیں بھلا میرے واپس آنے یا نہ آنے سے کیا لینا دینا؟ تم خود سے بے خبر رہتی ہو، تمہیں اپنی خبر نہیں۔
خیر میں تم سے معذرت کرتا ہوں ایک عرصہ تک میں تمہارے بیڈ روم پر قبضہ جمائے رہا ہوں، یہ لاسٹ نائٹ ہے کل سے تمہیں تمہارا روم مل جائے گا۔“ دلی احساسات کو چھپائے اس نے خوبصورتی سے بات بدل دی تھی۔
”بنڈل آف تھینکس پارس! شدید ناپسندیدگی کے باوجود تم نے بے حد تعاون کیا ہے میرے ساتھ، خیال رکھا میرا۔“
”ایسی کوئی بات نہیں ہے میں نے اسپیشلی آپ کیلئے کچھ نہیں کیا، گھر میں موجود تمام لوگوں کا خیال رکھنا میرا فرض ہے اس میں مہربانی کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی ہے۔
“ وہ آہستگی سے گویا ہوئی تھی، دونوں ہی کھڑے ہوئے تھے۔
”دادی جان کا بے حد خیال رکھنا پارس! وہ بہت کمزور ہو گئی ہیں، میں نے محسوس کیا ہے وہ پریشان ہیں مگر بتاتی نہیں ہیں۔“
”جی میں خیال رکھوں گی۔“ وہ کہتے ہوئے وہاں سے نکل گئی اور وہ وہیں کھڑا اس کی خوشبو کو محسوس کرتا رہا تھا۔

   1
0 Comments